صیہونی دانا بزرگوں کی دستاویزات
"دی الیومیناٹی پروٹوکولز"
قسط نمبر – 3 (دوسری دستاویز )
دستاویز کا نام : "معاشی جنگیں"
دستاویز کا مضامین: دستوری حکومتیں۔ معاشی بحران پیدا کرنا۔ اللہ کے وجود کا انکار کروانے کے لیے جھوٹی ڈارون تھیوری کو کامیاب کروانا۔ پریس سے متاثر ذہنیت پر قبضہ کرنا۔
"دی الیومیناٹی پروٹوکولز"
قسط نمبر – 3 (دوسری دستاویز )
دستاویز کا نام : "معاشی جنگیں"
دستاویز کا مضامین: دستوری حکومتیں۔ معاشی بحران پیدا کرنا۔ اللہ کے وجود کا انکار کروانے کے لیے جھوٹی ڈارون تھیوری کو کامیاب کروانا۔ پریس سے متاثر ذہنیت پر قبضہ کرنا۔
قارئین اب صیہونی دانا برزگوں کی دوسری دستاویز شروع ہورہی ہے، غور اور باریک بینی سے مطالعہ کیجیے۔ اس میں سائنس کی پیش کردہ "ڈارون تھیوری" کی اصلیت بھی بتائی گئی ہے۔ ڈارون تھیوری یعنی انسان حیوان سے بنا ہے کے نظریے کو جان بوجھ کر صیہونیوں نے دنیا میں مشہور کروایا تاکہ لوگوں کو یہ ماننے پر مجبور کیا جائے کہ کوئی خدا نہیں ہے یعنی کائنات خودبخود پیدا ہوگئی ہے تاکہ لوگ جنت و جہنم کو ذہن سے نکال کر نیکی اور گناہ میں کوئی تمیز نہ کریں، تاکہ انسان بھی حیوانوں کی طرح زندگی گزاکے مرجائیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ میڈیا کو دنیا کی کسی دوسری قوم نے اتنا اہم ہتھیار نہیں سمجھا جتنا صیہونیوں نے، اور صیہونی اس دستاویز میں اقرار کرتے ہیں کہ میڈیا نے انہیں بہت زیادہ پیسہ کماکر دیا ہے اور اب وہ پردے کے پیچھے رہ کر دنیا بھر کے لوگوں کے دماغ بڑی آسانی سے میڈیا کے زریعے بدل سکتے ہیں۔ غور سے پڑھیے گا۔
(اب نیچے صیہونیوں کے لیڈر کے الفاظ شروع ہوتے ہیں)
---------------------------------------------
دوسری دستاویز : "معاشی جنگیں"
دوسری دستاویز : "معاشی جنگیں"
" ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ جنگوں کے نتیجہ میں علاقے فتح نہ ہونے دیئے جائیں اور اس طرح جنگ کا رخ معاشی میدان کی طرف موڑ دیا جائے۔ متحارب ملکوں کو جو امداد فراہم کی جائے گی وہ ان ملکوں سے ہماری طاقت کا اعتراف کرائے بغیر نہیں رہے گی اور یہ صورت حال دونوں متحار ب ملکوں کو ہمارے بین الاقوامی گماشتوں(اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور عالمی سیاسی حکمران وغیرہ) کے رحم و کرم پر لا ڈالے گی۔ ان بین الاقوامی گماشتوں کے پاس لاکھوں دیکھنے والی آنکھیں اور بے شمار وسائل ہیں۔ اور اسی طرح ہم ان قوموں پر بالکل اسی طرح حکومت کریں گے جیسے کسی ملک کا دیوانی قانون اس ملک میں ہونے والے مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے۔
(قارئین اوپر بیان کیے گئے الفاظ میں صیہونیوں کا آقا اپنے چیلوں کو شیطانی گر سکھا رہا ہے کہ کوشش کی جائے جنگوں کے نتیجے میں علاقے نہ خود فتح کرو نہ کسی اور کو فتح کرنے دو کیونکہ اس طرح وہ علاقے صیہونیوں کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے، اس کے برعکس ان علاقوں یا ممالک کو معاشی بحران سے بچانے کے لیے بھاری قرض دیے جائیں تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے صیہونیوں کے پیسے کے محتاج ہوجائیں۔ آج آپ آئی ایم ایف، ورلڈ بین وغیرہ جیسے عالمی ادارے دیکھ سکتے ہیں جو علاقے فتح کرنے کے بجائے ممالک کو قرض دیگر اپنا غلام بنالیتا ہے۔)
اب آگے پڑھیے صیہونیوں کا آقا کیا کہتا ہے؛
"ان کے جھگڑے چکانے کے لئے جو ناظم مقرر کئے جائیں گے وہ عوام میں سے لئے جائیں گے مگر ان کے تقرر میں اس بات کا خیال خاص طور پر رکھا جائے گا کہ وہ ہماری (صیہونیوں کی) حکم عدولی نہ کرسکیں۔ چونکہ یہ لوگ رموز مملکت سے ناواقف ہوں گے اس لئے ان کی حیثیت رموز مملکت سے آشنا لوگوں کے ہاتھوں میں محض مہروں کی سی ہوگی۔ ان کے مشیر وہ ماہرین ہوں گے جنہیں بچپن سے ہی دنیا پر حکومت کرنے کی تربیت دی گئی ہوگی۔"
(قارئین ! ان سطروں میں صیہونیوں کا لیڈر جن ناظمین کا ذکر کر رہا ہے اس سے مراد عالمی عدالت سمجھی جاسکتی ہے، یعنی عالمی عدالت جو ممالک کے بیچ مسئلے حل کرواتی ہے ان میں ایسے لوگوں کا تقرر کیا جائے جو صیہونیوں کی حکم عدولی نہ کرسکیں یعنی ان کے من پسند فیصلے دیتے رہیں)۔
اب مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
" جیسا کہ آپ کو علم ہے، ہمارے یہ ماہرین وہ جملہ معلومات اکٹھی کرتے رہتے ہیں جن کی ہمارے منصوبوں کے لئے ضرورت ہوسکتی ہے۔ یہ تاریخ سے سبق لیتے ہیں اور ہر ہر لمحہ گزرنے والے عالمی واقعات کا جائزہ لتے رہتے ہیں۔ غیر یہودی تاریخ کا معروضی اور بے لاگ انداز میں عملی تجزیہ کرکے اس سے نتائج اخذ نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ ہونے والے واقعات کے منطقی نتائج کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے صرف نظریاتی لکیریں پیٹتے ہیں۔
ہمیں بحرحال انہیں کوئی اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں اپنے حال میں مگن رہنے دیں تاوقتیکہ وہ فیصلہ کن لمحہ آن پہنچے۔ انہیں اپنی نت نئی تفریحات اور منفعت بخش امیدوں کے سہارے یا گزرے ہوئے لمحات کی خوشگوار یادوں کے سہارے جینے کے لئے چھوڑدیں۔
( قارئین ! اوپر کی سطور پر صیہونیوں کا لیڈر کے الفاظ میں جو فیصلہ کن لمحہ کے ذکر ہے اس سے مراد یا تو اسرائیل کا وجود قائم کرنا یعنی یہودیوں کو ایک ملک میں جمع کرنا ہے یا پھر دجال کا خروج ہے۔ اس کے علاقہ وہ کہتا ہے کہ ہمارے ماہرین مطلب معیشت دان، سیاستدان، سائنسدان وغیرہ جو یہودی ہیں وہ پوری دنیا کے حالات پر صرف نظر ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کا جامع اور منطقی حل بھی پیش کرتے رہتے ہیں جبکہ دیگر غیر یہودی یعنی مسلمان، عیسائی یا ہندو وغیرہ بھی دنیا پر نظر تو رکھتے ہیں لیکن صرف اپنے اپنے نظریات تک ہی رولا ڈالتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں ہورہا ، یہ کیوں ہورہا ہے ویسا کیوں نہیں ہورہا، وہ صرف تنقیدی رولا ڈال سکتے ہیں مگر یہ صیہونیوں کی اصل گیم پلان کو سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں کیونکہ صیہونیوں کے ہی ماہرین نے انہیں اس طرح لاجواب کر رکھا ہوتا ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لیے کوئی رخ بچتا ہی نہیں)۔
( قارئین ! اب آگے پڑھتے ہیں ، غور کیجیے گا اب صیہونیوں کا لیڈر اعتراف کرے گا کہ اس نے یہ سب باتیں محض خیالی نہیں کی بلکہ اس کا عملی نمونہ ڈارون تھیوری بھی پیش کروائی جس کو جان بوجھ کر مشہور کروایا گیا۔)
" ہم نے انہیں ترغیبات دے دے کر یہ باور کرادیا ہے کہ علمی دور کے تقاضوں کے مطابق زندگی میں یہی چیزیں اہم ترین ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر ہم اخباروں اور رسالوں کے ذریعے متواتر ان نظریات کا پرچار کرکے ان پر اندھا اعتقاد پیدا کر رہے ہیں۔ غیر یہودی دانشوران نظریات سے لیس ہوکر بغیر منطقی تصدیق کے ان نظریات کو روبعمل لانے کی کوشش کریں گے اور ہمارے ماہر گماشتے اپنی کمال عیاری سے ان کی فکر کا رخ اس طرف موڑ دیں گے جو ہم نے ان کے لئے پہلے سے مقرر کی ہوئی ہے۔ آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سبہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ خالی خولی الفاظ ہیں۔
غور کیجیے کہ ڈارون کے نظریے کو کس نے کامیابی سے ہمنکار کرایا ۔۔۔؟
مارکیست اور نطشے کے فلسفے کا کس نے لوہا منوایا۔۔۔؟
ہم یہودیوں پر بہر طور یہ بات بالکل واضع ہے کہ ان نظریات سے غیر یہودی دماغ کس قدر منتشر اور پراگندہ کئے گئے۔۔۔!
( قارئین ! آپ نے نوٹ کیا؟ اوپری الفاظ میں صیہونیوں کے لیڈر نے واضع اعتراف کیا ہے کہ "ڈارون کے نظریے " کو انہوں نے کس طرح کامیابی سے ہمنکار کرایا یعنی انہوں نے جان بوجھ کر ڈارون تھیوری نہ صرف پیش کروائی بلکہ اسے پوری دنیا میں پھیلاکر کامیاب بھی کروایا اور وہ واقعی کامیاب بھی ہوئےکیونکہ آج مسلمان ممالک میں مسلمانوں کے بچے بھی ڈارون تھیوری پڑھنے پر نہ صرف مجبور ہیں بلکہ انہیں ڈارون تھیوری (نظریہ ارتقائ) پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نظر نہیں آتا)۔
اب مزید آگے پڑھتے ہیں اور جانتے ہیں صیہونی کیا کہتا ہے؛
"ہمارے لئے دوسری قوموں کے خیالات کا تجزیہ کرنا اور ان کے خصائل اور کردار کا مطالعہ کرنا اس لئے ضروری ہے تاکہ سیاسی اور انتظامی امور میں کوتاہی کا معمولی سا بھی احتمال بھی باقی نہ رہے۔ ہمارے نظام کی کامیابی اور ان عوامل کی کامیابی جو اس نظام کو چلاتے ہیں ( جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑنے والا ہے ان کی افتاد طبع اور مزاج کے مطابق طریقہ کار میں ردو و بدل کیا جاسکتا ہے)۔ اس وقت تک یقینی نہیں بنائی جاسکتی جب تک ماضی سے لے کر حال کی روشنی میں اس کے استعمال کا عملی خاکہ تیار نہ کرلیا جائے۔"
( قارئیں ! اب یہاں سے صیہونیوں کا لیڈر میڈیا کی اہمیت بیان کرتا ہے، غور سے پڑھیے۔ یاد رہے اس وقت پوری دنیا کا 99 فیصد میڈیا انہی صیہونیوں کی ملکیت ہے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹویٹر، گوگل، یوٹیوب، انسٹاگرام، واٹس ایپ وغیرہ وغیرہ بھی انہی صیہونیوں کی ملکیت ہیں) ۔ اب آگے پڑھتے ہیں۔ )
"موجودہ حکومتوں کے پاس ایک اتنی بڑی طاقت ہے جو عوام کے خیالات کو کسی بھی رخ پر موڑنے کی حلاحیت رکھتی ہے اور یہ طاقت ہے "پریس کی طاقت"۔۔۔۔!
پریس کا کام یہ ہے کہ وہ ناگزیر ضروریات کی نشاندہی کرتا ہے، لوگوں کی شکایات منظرعام پر لاتا ہے، بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے اور عدم اطمینان پیدا کرتا ہے۔ یہ پریس ہی ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کو اپنا نتاسخ نظر آتا ہے۔ لیکن غیر یہودی حکومتیں اس طاقت کا صحیح استعمال نہیں جانتیں تھیں اور اس لئے یہ طاقت ہمارے ہاتھ لگ گئی۔
پریس کے ذریعہ، خود کو پس پردہ رکھتے ہوئے ہم نے عوام پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ بھلا ہو پریس کا کہ آج ہمارے پاس دولت ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ دولت ہم نے خون اور آنسوؤں کے کتنے سمندروں سے گزر کر حاصل کی ہے۔ اس نے ہمیں نے انداز فائدہ پہنچایا ہے۔
اس کے لئے ہمیں بےشمار افراد کی قربانی دینی پڑی ہے لیکن ہمارے ایک ایک فرد کی قربانی خدا (دجال) کی نظر میں غیر یہود کے ایک ایک ہزار افراد کی قربانی کے برابر ہے۔"
نوٹ: یہاں پر الیومیناٹی پروٹوکولز کی ' تیسری دستاویز' ختم ہوئی۔
-----------------------------------
-----------------------------------
قارئین ! آخری الفاظ میں صیہونیوں کا لیڈر پریس یعنی میڈیا کی اہمیت بتارہا تھا، یاد رہے یہ دستاویزات اٹھارویں صدی کی ہیں اور آج اکیسویں صدی چل رہی ہے، دو صدیاں گزرنے تک صیہونیوں نے میڈیا پر اتنا کام کیا کہ آج 99 فیصد پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے مالک یہی صیہونی الیومیناٹی فری میسن بن چکے ہیں۔
فیس بک کا مالک بھی صیہونی، ٹویٹر کا مالک بھی صیہونی، گوگل ہو یا یوٹیوب یا واٹس ایپ ہو یا انسٹاگرام، سب کے مالک یھی فری میسن الیومیناٹی یعنی صیہونی ہیں۔
موبائل فون سے لیکر کمپیوٹر تک تمام چیزیں صیہونیوں کی قائم کردہ کمپنیاں بناتی ہیں جنہیں مسلمان مجبورا استعمال کرتے ہیں۔ صیہونی یہ چیزیں بیچتے بھی ہیں اور ساتھ میں ان ڈوائسز کے ذریعے مسلمانوں کی جاسوسی بھی کرتے ہیں۔ آج شاید ہی کوئی موبائل فون ہو جس کا تمام ڈیٹا صیہونیوں کے پاس نہ ہو۔ افسوس مسلمانوں نے ان اہم چیزوں پر توجہ نہیں دی۔
اس کے علاوہ "دستاویز نمبر 3" میں صیہونیوں کے دانا بزرگ نے "ڈارون تھیوری " کا اعتراف کیا ہے جو کہ آپ کے لیے حیرت کا باعث ہونا چاہیے۔
ہم سب نے اپنے سکول، کالج یا یونیورسٹی میں نظریہ ارتقا "ڈارون تھیوری" کو ضرور پڑھا ہوگا اور اس پر یقین بھی کرلیا ہوگا لیکن اس کے پیچھے صیہونیوں کے کیا مقاصد تھے یہ تو ہمارے استاد اور پروفیسرز حضرات بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔ صیہونی اسی لیے کہتے ہیں کہ غیر یہودی ان اہم ترین باتوں پر سوچتے ہی نہیں وہ صرف نظریات کی لکیریں پیٹے ہیں۔
صیہونی 'قوم بنی اسرائیل' کی باقیات ہیں ۔ بنی اسرائیل ایک وقت میں اللہ کی پسندیدہ ترین قوم ہوتی تھی، اس قوم میں انتہائی ذہین لوگ ہوتے ہوتےتھے لیکن ان کی مسلسل سرکشی، انبیاء کرام (علیہم السلام) کو ناحق شہید کرنا اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کی موجودگی میں ان کی نبوت کا انکار کرکے بچھڑے کی پوجا کرنے جیسے بڑے بڑۓ گناہوں کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو ہمیشہ کے لیے دھتکار دیا لیکن ان کی عقل پھر بھی قائم رہی۔ شیطان بھی ان کے ساتھ ہوگیا تو انہوں نے پوری دنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہر زمانے میں نت نئے منصوبے بنائے۔
الیومیناٹی پروٹوکولز کی ان دستاویزات میں وہی شیطانی منصوبے لکھے ہوئے ہیں جن کو باریک بینی سے تحریر کرکے صیہونیوں کے دانا بزرگوں نے اپنے انتہائی خفیہ لوگوں کو بھیجے۔لیکن اللہ کا احسان کے یہ دستاویزات لیک یعنی چوری ہوگئیں اور دنیا کو پتا چلا کہ صیہونی کتنے گھٹیا منصوبے بناتے ہیں کہ خود شیطان بھی ان سے پناہ مانگے۔
آج دنیا پر ایک خفیہ برادری کا کنٹرول جو کسی کو نظر نہیں آتی اور یہ برادی یہی الیومیناٹی فری میسن یعنی صیہونی ہیں۔ اس خفیہ برادری کی طاقت آج صرف اور صرف بیشمار دولت اور دنیا بھر کی معیشت اپنے قبضے میں ہونا ہے۔
یہ پس پردہ رہ کر دنیا کی حکومتیں گراتے ہیں، جس ملک کی چاہیں معیشت تباہ کرواتے ہیں، جب چاہیں ڈالر کو اوپر کردیتے ہیں یا نیچے لے آتے ہیں، اسٹاک ایکسینچ کو جب چاہیں اوپر کروادیتے ہیں اور جب چاہیں کریش کرواکے اربوں کا نقصان کروادیتے ہیں، پیٹرول کی قیمتیں جب چاہیں بڑھادیتے ہیں یا گھٹادیتے ہیں۔ دنیا جہاں کی ٹیکنالوجی اور وسائل پر انہی صیہونیوں کا قبضہ ہے۔
آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ ڈارک نیٹ کے خالق بھی یہی صیہونی ہیں۔ وہی ڈارک نیٹ جس پر قصور کی ننھی پری "زینب" کی جنسی تشدد والی وڈیوز بناکے بھیجی گئی۔ یہ کام صیہونی کرتے ہیں کیونکہ وہ درندہ صفت انسان ہوتے ہیں، ان میں شیطان کی ہر صفت موجود ہوتی ہے بلکہ وہ شیطان کو خوش کرنے کے لیے بھی یہ کام ضروری سمجھ کر کرتے ہیں۔ انہیں بچوں کو تشدد کرکے مارنا پسند ہوتا ہے کیونکہ ایسے عمل کرنے سے شیطان ان سے خوش ہوتا ہے اور شیطان خوش ہوتا ہے تو انہیں جادو سکھاتا ہے اور دنیا پر کنٹول کرکے دنیا کو جہنم بنانے کے مزید گر بتاتا ہے۔
اگلی دستاویزات میں مزید انکشافات کروں گا۔ آہستہ آہستہ آپ ان صیہونیوں کو اچھی طرح جان جائیں گے۔ آپ سے درخواست ہے تحریر کو کم سے کم دو تین مرتبہ لازمی پڑھیں۔ اگر کچھ سمجھ نہیں آیا تو کمنٹ میں پوچھ سکتے ہیں۔
تحریر : یاسررسول
0 comments:
Post a Comment