صیہونی دانا بزرگوں کی دستاویزات "دی الیومیناٹی پروٹوکولز"
قسط نمبر – 5
(چوتھی دستاویز )
دستاویز کا نام " مادیت مذھب کی جگہ لیتی ہے "
دستاویز کے مضامین:
عوام حکومت کے مراحل – غیر یہود کی ہماری خفیہ تنظیم فری میسن سے لاعلمی - صنعت میں بین الاقوامی قیاس اندازی (اسپیکیولیشن) رائج کرنا۔ زرپرستی کا مسلک تخلیق کرکے ملحدوں کی فوج پیدا کرنا ۔ ملحدوں کے زریعے مذھب سے بیزاری پھیلانا۔
قسط نمبر – 5
(چوتھی دستاویز )
دستاویز کا نام " مادیت مذھب کی جگہ لیتی ہے "
دستاویز کے مضامین:
عوام حکومت کے مراحل – غیر یہود کی ہماری خفیہ تنظیم فری میسن سے لاعلمی - صنعت میں بین الاقوامی قیاس اندازی (اسپیکیولیشن) رائج کرنا۔ زرپرستی کا مسلک تخلیق کرکے ملحدوں کی فوج پیدا کرنا ۔ ملحدوں کے زریعے مذھب سے بیزاری پھیلانا۔
قارئین ! اس سے پہلے کہ ہم الیومیناٹی پروٹوکولز کی دستاویز نمبر 4 پڑھیں، پہلے اس دستاویز کا مختصر تعارف ہوجائے۔ یہ دستاویز انتہائی اہم ہے۔ اس میں جامع دو معنوی الفاظ استعمال کیے گئے جو عام دماغ رکھنے والے لوگوں کو سمجھ نہیں آئیں گے، یہ دستاویز صرف عقلمند لوگ ہی سمجھ سکیں گے۔ اس دستاویز میں صیہونی فری میسن کا تعارف کرواتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کس طرح غیر یہود کو لاعلم رکھ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آگے چل کر مادیت اور زر پسندی پر بات کرتے ہوئے شیطانی گر بتاتا ہے کہ کس طرح لوگوں کو دین سے بیزار کرکے زرپرست بنایا جائے تاکہ وہ اپنے مذھب ہوکر صرف دنیا کی دولت کمانے میں مگن ہوجائیں یعنی دوسرے الفاظ میں وہ ہمارے غلام بن جائیں۔ دستاویز کے الفاظ بہت گہرے ہیں انتہائی غور اور باریک بینی سے رک رک کر مطالعہ کیجیے)۔
اب نیچے سے چوتھی دستاویز شروع ہوتی ہے
--------------------------------
--------------------------------
چوتھی دستاویز
" مادیت مذھب کی جگہ لیتی ہے "
" مادیت مذھب کی جگہ لیتی ہے "
ہر عوامی حکومت مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلا مرحلہ شروع کے دنوں میں کورچشم عوام کے جنونی غیض و غضب پر مشتمل ہوتا ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر،کبھی دائیں کبھی بائیں، یعنی اس کی کوئی سمت متعین نہیں ہوتی۔ دوسرا مرحلہ شورش پسند بازاری قسم کے تقریر بازوں کا ہوتا ہے جس سے لاقانونیت اور نراجیت جنم لیتی ہے اور اس کے نتیجےکے طور پر لازمی ایک ظالم اور جابر سوچ(حکومت کے خلاف کام کرنے والا خفیہ اتحاد) وجود میں آتی ہے۔ یہ مطلق العنانی (جابر سوچ یا نظریہ) قانونی اور اعلانیہ نہیں ہوتی اس لئے ذمہ داری سے کام کرتی ہے۔ ہوتی تو مطلق العنانی ہی ہے لیکن ظاہر بظاہر نظر نہیں آتی اور خفیہ ہوتی ہے۔
(قارئین ممکن ہے آپ کوصیہونیوں کے دانا بزرگ کے اوپری الفاظ سمجھ نہ آئے ہوں۔ میں سادا الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو بھی حکومت بنتی ہے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ اس حکومت کے دو مختلف مرحلوں پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک مرحلے حکومت کے خلاف عوام کے غیض و غضب کا ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد دوسرا مرحلہ حکومت کے خلاف ایک سوچ یا نظریہ تخلیق پانے کا ہوتا ہے جس میں بازاری قسم کی تقریریں ہونے لگتی ہیں جس سے لاقانونیت اور نراجیت جنم لیتی ہے۔ یہ سوچ اعلانیہ نہیں ہوتی نہ ہی قانونی ہوتی ہے۔ یہ سوچ آگے چل کر ایک تنظیم کا روپ دھارتی ہے جو حکومت کے خلاف برسرپیکار ہوجاتی ہے۔ یہ سوچ خفیہ ہوتی ہے۔)
اب ہم صیہونی دانا بزرگ کے مزید الفاظ پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
کسی خفیہ تنظیم کی مطلق العنانی، جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے پس پردہ کام کرنے کی وجہ سے زیادہ "بےضمیر" ہوتی ہے۔ یہ تنظیم خود پس پردہ رہ کر اپنے گماشتوں (ایجنٹوں) کے ذریعہ کام چلاتی ہے جنہیں حسب ضرورت تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے چہرے بدلنے سے تنظیم کو نقصان کے بجائے الٹا فائدہ ہوتا ہے۔ مستقل تبدیلیاں کرنے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو منظر سے ہٹاکر وسائل میں اضافہ کرنے کے لئے دوسروں کو ان کی خدمات کے معاوضہ کے طور لے آیا جاتا ہے۔
ایسی قوت کو جو نظر ہی نہ آتی ہو، کون اور کس طرح شکست دے سکتا ہے؟ ہماری قوت بعینہ یہی ہے۔ "فری میسن" کے غیر یہودی افراد جنہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس لئے کام کر رہے ہیں، اپنی لاعلمی کی وجہ سے، اندھوں کی طرح ہماری اور ہمارے مقاصد کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ ہماری تنظیم کے عملی منصوبے، یہاں تک کہ تنظیم کے مستقر کا محل و قوع(نظریہ، ڈھانچہ، تنظیم سازی وغیرہ) تک ان لوگوں کے لئے ایک نامعلوم سربستہ راز ہی رہتا ہے۔
(قارئین ! اوپر کی سطور میں فری میسن کی تنظیم سازی کے مطلق بتایا گیا ہے کہ یہ تنظیم اتنی خفیہ ہوتی ہے کہ اسے صرف چند افراد ہی جانتے ہیں اور بیشترافراد جن اس تنظیم کے ایجنڈے کے لیے ہی کام کرتے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ آج فری میسن صہونی این جی اوز کے روپ میں دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں اور جو افراد این جی اوز میں کام کرتے ہیں انہیں سرے سے کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کو کس مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ صیونی کہتا ہے جو سوچ یا نظریہ حکومتوں کے خلاف تخلیق پاتا ہے یہی ہمارا قیمتی اثاثہ ہے ہم انہیں پیسے دیکر حکومتوں کے خلاف آسانی سے استعمال کرسکتے ہیں اور اپنے صیہونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان سے مدد لے سکتے ہیں جبکہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ صیہونی انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔)
اب ہم مزید آگے صیہونی دانا بزرگ کے الفاظ پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
آزادی ہمیشہ مضرت رساں نہیں ہوتی۔ یہ بےضرر بھی ہوسکتی ہے اور اسے ملکی معیشت میں،عوام کی خوشحالی کو نقصان پہنچائے بغیر ایک مقام دیا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس کی بنیادیں خدا (دجال)پر ایمان اور ایسی انسانی اخوت پر ہوں جس کا تعلق مساوات سے نہ ہو۔ مساوات، تخلیق کے قانون کی، جس میں ایک دوسرے کی اطاعت واجب کی گئی ہے، ضد ہے۔
اگر یہ عقیدہ ہو تو کلیسا کی زیر کفالت عوام پر حکومت کی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں عوام اطمینان اور فروتنی کے ساتھ اپنے روحانی پیشوا کے زیر سایہ رہ کر زمین پر خدا (دجال) کی اطاعت اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم تمام مذاہب کو شبہ اور تذبذب کا شکار کردیں اور غیر یہود کے دماغ سے خدا اور روح کا تصور نوچ کر پھینک دیں اور اس کے بدلے ان کے دماغوں میں حساب کی جمع تفریق اور مادی ضروریات کی خواہش بھردیں۔
(قارئین ! کچھ سمجھ آیا ؟ یقینا اوپر بیان کی گئی بات آپ کے دماغ کے اوپر سے گزر گئی ہوگی۔ الفاظ بہت گہرے اور ذو معنی استعمال کیے گئے ہیں اس لیے صرف عقلمند لوگ ہی صیہونیوں کے دانا بزرگ کی باتوں کی گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔ آسان الفاظ میں صیہونی دانا بزرگ کہہ رہا تھا کہ عوام کو آزدی دینا ہمیشہ ہی نقصان دہ نہیں ہوتا اگر اسے کسی ملک کی معیشت اور عوامی سوچ میں ڈال دیا جائے تو اس سے بہت سے فائدے مل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک سوچ پرواں چڑھائی جائے جس کی بنیادمساوات پر ہو یعنی قدرت کے قانون اطاعت کے خلاف ہو تو پھر اس کے زریعے ہم دنیا کی بہت بڑی آبادی پر حکومت کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی دنیا کو تمام مذاھب سے بدظن بھی کرسکتے ہیں اور لوگوں کو مساوات کے نام پر الو بناکر انہیں کسی رہنماء کے زریعے آسانی سے اپنے ایجنڈے پر چلاسکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ایسا ہوجائے تو ہم کلیسا (چرچ)کی زیر کفالت عوام پر حکومت کرسکتے ہیں۔ یعنی کلیسا (چرچ) کا جو سربراہ ہوگا وہ صیہونی ایجنڈے پر چلے گا جبکہ عوام اس سربراہ کو ہی رہنماء مان کر اس کی باتوں پر من و عن عمل کرے گی جبکہ رہنماء اللہ کے قانون اطاعت (یعنی ایک دوسرے کی اطاعت) کے بجائے مساوات (برابری کی آزادی) کو فروغ دے گا۔ مساوات یعنی برابری کی آزادی کی ایک مثال مرد اور عورت کو برابر حقوق دینا بھی ہے۔ یاد رہے اسلام میں اور عورت کو برابر حقوق نہیں ہیں کیونکہ مرد حکمران ہوتا ہے اپنے خاندان کا جبکہ صیہونیوں نے عورت کی آزادی اسی مساوات کے نعرے سے پیدا کی ہے)۔
اب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
غیر یہودی کو سوچنے کا وقت نہ دینے کے لئے ان کے ذہنوں کا رخ صنعت اور تجارت کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ اس طرح ساری قومیں مالی منفعت کی دور میں مصروف ہوجائیں گی اور اس تگ و دو میں لگ کر وہ اپنے مشترکہ دشمن (صیہونیوں) کو نظر انداز کردیں گی۔
لیکن اب اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ آزادی غیر یہودی معاشرے کو پارہ پارہ کرکے بلکل تباہ کردے، ہمیں صنعت کے شعبے کو قیاس اندازی کی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے جو سرمایہ اراضی سے نکال کر صنعتی شعبے میں لگایا ہوگا وہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر قیاس انداری کے شعبے میں منتقل ہوجائے گا یعنی دوسرے الفاظ میں ہمارے ہاتھ میں آجائے گا۔
(قارئین ! قیاس اندازی کا جو ذکر کیا گیا ہے یہ اسٹاک ایکسچنج بھی ہے جس میں ہر ملک کے صنعتی اداروں کے شیئرز ہوتے ہیں اور ان تمام شیئرز کی قیمتیں قیاس آرائی پر ہی اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔ اس اسٹاک ایکسچینج کی ساری دولت صیہونیوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جب چاہیں کسی بھی ملک یا کمپنی کے متعلق قیاس آرائیاں یعنی پروپیگنڈہ یا افواہیں پھیلاکر اس کے شیئرز کی قیمتیں گراکر اسے اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچادیں۔ حال ہی میں چند ماہ پہلے مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کے متعلق ایک خبر پھیلائی گئی کہ اس نے امریکی انتخابات میں ایک پرائیوٹ کمپنی کو صارفین کا ڈیٹا دیا تھا۔ یہ خبر آتے ہیں فیس بک کے شیرز کی قیمتیں زمین بوس ہوگئیں اور چند ہی گھنٹوں میں فیس بک کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوگیا۔ کہنے کا مقصد اسٹاک ایکسچنج کی پوری بنیاد ہی افواہوں اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر ہر وقت اورپر نیچے ہوتی رہی ہے۔ یہ وہی قیاس اندازی کاروبار ہے جس کا ذکر صیہونی دانا بزرگ نے اوپر بیان کیا۔)
اب مزید آگے پڑھتے ہیں ۔ ۔ ۔
مسابقت کی شدید جدوجہد اور معاشی زندگی کے جھٹکے ایسے گروہوں کو وجود میں لے آتے ہیں بلکہ وجود میں لاچکے ہیں جو انسانی جذبات سے عاری، بےرحم اور بےضمیر ہیں۔ یہ لوگ کسی بہتر سیاسی نظام اور مذہب بیزاری کے جزبات کو ہوا دیں گے۔ ذاتی مفادات کے حصول، یعنی حصول زر ان کا واحد نصب العین ہوگا اور ان مادی لذتوں کی خاطر جو دولت سے مہیا ہوتی ہیں، یہ لوگ زرپرستی کے مسلک کی بنیاد ہلا ڈالیں گے۔ اس کے بعد وہ وقت آئے گا کہ جب کسی نیکی کی خاطر نہیں، دولت کے حصول کے لئے بھی نہیں، بلکہ صرف اس نفرت کی بنیاد پر جو انہیں مراعات یافتہ سے ہوگی، غیر یہود کے ادنیٰ طبقے کے لوگ، ہماری قوت کے حریفوں، یعنی غیر یہود کے باشعور افراد کے خلاف ہمارا حکم مانیں گے۔
- - - یہاں پر چوتھی دستاویز ختم ہوگئی - - - -
قارئین اوپر کے الفاظ میں ایک انتہائی گہناؤنے ایجنڈے کا ذکر ہے۔ صیہونی دانا بزرگ کے کہنے کا مطلب ہے کہ دراصل ہر غریب انسان امیر بننا چاہتا ہے لیکن بن نہیں سکتا، یہ برابری کی خواہشیں اور اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے مسلسل دنیا والوں کے دھکے کھانے سے معاشرے میں ایک نئی سوچ جنم لیتی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے، یہ بےرحم سفاک ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ لوگ سیاست اوریہاں تک کہ اپنے مذھب سے بھی بیزار ہوجا تے ہیں۔
اس سوچ کے حامل افراد کا ایک نیا مسلک بن جاتا ہے جس کا عقیدہ صرف اورصرف زر پرستی یعنی زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہوتا ہے۔
صیہونی دانا بزرگ کہتا ہے یہ لوگ ہمارے بہت کام آئیں گے، یہ زرپرست لوگ "مذھب سے بیزار" ہوجائیں گے تو ہم انہیں دوسروں کو بھی "مذھب سے بیزار" کرنے کے لیے آسانی سے استعمال کریں گے۔ یہ لوگ ہمارے پیسے پر پلیں گےاور ہم ان کی ضروریات پوری کرکے ان سے فری میسن کے ایجنڈے کی تکمیل کا کام لیں گے۔ یہ ہمیں نہیں جان سکتے کہ ہم صیہونی ہیں، یہ نیکیاں کمانے کے لیے بھی ہمارا کام نہیں کریں گے بلکہ یہ صرف اس امیر طبقے سے نفرت کی وجہ سے کام کریں گے۔
دوستو آپ دیکھیں صیہونی دانا بزرگ کے اس شیطانی گر بتانے کے بعد دنیا میں کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جوخود کو " ملحد" کہلانا شروع ہوئے، ملحد اللہ کا بھی انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "انسانیت سب سے بڑا مذھب ہے" باقی تمام مذاھب جھوٹ ہیں۔
یہ اسی صیہونی ایجنڈے کی تکمیل تھی، ملحدوں کو تخلیق کرکے، انہیں زرپرست بنانے کے بعد صیہونیوں نے دنیا کے تمام مذاھب کے پیروکاروں کو سچ میں تذبذب کا شکار کردیا ہے، یعنی اب لوگ اپنے اپنے مذاھب پر خود ہی تنقید کرنے لگتے ہیں، غیر تو غیر یہاں تو کچھ مسلمان بھی اپنے دین پر شک کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ صیہونیوں کا ایمان ہے کہ ان کا خدا (یعنی دجال) اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک اس دنیا کے باشندے اپنے اپنے مذھب سے بیزار نہ ہوجائیں۔ اس لیے دنیا کو پہلے تمام مذاھب سے بدظن کرنانہایت ضروری ہے تاکہ جب دجال آئے تو سب لوگ جو پہلے سے ہی اپنے اپنے مذھب سے بیزار ہوں گے، فوراََ دجال کے نئے مذھب کو َ مان کر اس پر ایمان لے آئیں گے۔
بیشک دجال کا فتنہ بہت سخت ہے۔ اللہ ہمیں دجال کے فتنے سے محفوظ رکھے
پاکستان میں بھی ملحدوں کے کئی گروہ پائے جاتے ہیں جو ہر جگہ"انسانیت سب سے بڑا مذھب ہے" کا دلفریز نعرہ لگاکر نہ صرف خود گمراہ ہوتےہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے اس گروہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ انجانے میں صیہونی ایجنڈے کی تکمیل کا کام کر رہے ہیں۔ صیہونی دانا بزرگ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے اوپر کہا تھا کہ ہم انہیں استعمال کریں گے مگر انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کس مقصد کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔
لوگوں کو مذہب سے بیزار کرنے کے لیے انسانیت کا چورن بیچا جاتا ہے، مثال کے طور پر یہ لبرل ملحد لوگ عید قربان پر روتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جانور کو زبح کرکے ان پر ظلم کیا جارہا ہے جبکہ یہ سارا سال خود مکڈونلڈ برگر اور مٹن کھا کھاکر تھک جاتے ہیں لیکن وہاں جانور پر ظلم نظر نہیں آتا۔ دراصل ان کا مقصد صرف عید قربان پر مسلمانوں میں مذھب سے بیزاری پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگ اسلامی احکام سے بدظن ہوکر قربانی کرنا چھوڑ دیں۔ اس طرح یہ لبرل ملحد صیہونی ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر آج ایک مسلمان قربانی سے انکار کردے تو کل اس کی پوری اولاد بھی اپنے باپ کے مطابق زندگی بھر قربانی نہیں کرے گی، یعنی اس طرح آہستہ آہستہ معاشرے کے افراد مذھبی عقائد اور احکام سے بغاوت کریں گے اور جواز یہ پیش کریں گے کہ ہم مذھب سے بیزار ہیں اور کہیں کہ ہم کسی مذھب کو نہیں مانتے اور نعرے لگائیں گے کہ "انسانیت سب سے بڑا مذھب ہے"، لیجیے جناب ہوگیا صیہونی ایجنڈہ کامیاب۔
قارئین یہ تھا اس دستاویز کا نچوڑ جس کو مادیت کا نام دیا گیا تھا، یعنی مادیت مذھب کی جگہ لیتی ہے۔
0 comments:
Post a Comment